برین لمفوما میں مبتلا ایک باہمت خاتون کی کہانی جس کی ہمت اور بروقت صحیح فیصلے نے اسے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کا یہ پہلا تجربہ تھا جو کہ 58 سالہ نورین محمود پر کیا جانا تھا ۔جس کے کیمو میں کیڑے مار دوا کا استعمال کیا جانا تھا۔
لمفوما کیا ہے؟
لمفوما ایک نایاب قسم کا کینسر ہے جو لمفیٹک نظام میں شروع ہوتا ہے ۔ چونکہ لیمفیٹک نظام آپ کے پورے جسم میں چلتا ہے ، آپ کو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی سمیت تقریبا کہیں بھی لمفوما ہو سکتا ہے۔ دماغ کے زیادہ تر لمفوماس دماغ دماغ کے اگلے حصے سے شروع ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ لمفوماس شروع ہو سکتے ہیں
ریڑھ کی ہڈی: ریڑھ کی ہڈی میں شروع ہونے والا لیمفوما پرائمری اسپائنل لمفوما کہلاتا ہے
آنکھیں: آنکھوں میں شروع ہونے والا لیمفوما پرائمری انٹراوکولر لمفوما کہلاتا ہے
دماغ کو گھیرنے والے ٹشوز: وہ ٹشو کی پرتیں جو دماغ کو گھیر لیتی ہیں یہاں سے شروع ہونے والا لمفوما پرائمری لیپٹومینجیل لمفوما کہلاتا ہے
لمفوما کیسے پھیلتا ہے؟
ڈاکٹرز کے مطابق لمفوما عام طور پر بغلوں یا گردن کے گلینڈز میں ہوتا ہے اور یہ خون کے خلیوں میں گردش کرتا ہے۔ سو میں سے کسی ایک مریض میں یہ خون کے خلیوں سے ہوتا ہوا برین میں پہنچ جاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا علاج سرجری سے نہیں کیا جا سکتا
لمفوما کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
لمفوما کا علاج سرجری کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی روک تھام کے طریقوں میں شامل ہیں کیموتھراپی، ریڈی ایشن سٹیم سیل یا امینو تھراپی۔
نورین محمود کے برین لیمفوما کی ابتداء
نورین 2019 تک اپنے شوہر کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹاتی رہیں ، وہ ایک صحت مند خاتون تھیں لیکن اچانک گرنے کی وجہ سے ان کے پاؤں میں فریکچر آگیا اور انہیں پلاسٹر لگایا گیا ۔پلاسٹر اترنے کے بعد بھی نورین کے مسائل میں کمی نہ آئی ان کا جسم کا بایاں حصہ کافی کمزور ہوگیا اور وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتی تھیں، اس خراب صورتحال کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں ان کا باڈی اسکین ہوا جس میں ٹیومر کی تشخیص ہوئی جسے برین لمفوما کہا جاتا ہے
پہلا آپریشن
ٹیومر کی تشخیص کے بعد انہیں آغاخان ہسپتال لےجایا گیا جہاں ان کے دماغ کا آپریشن ہوااور 8 مرتبہ کیموتھراپی کی گئی ۔ اس کے بعد 15 ماہ تک طبیعت صحیح رہنے کے بعد تکلیف میں اضافہ شروع ہو گیا اوران کی 5 مرتبہ پھر کیمو ہوئی
نورین کی بگڑتی طبیعت
کینسر کا مرض نورین محمود کے لئے نیا نہیں تھا ، وہ برسوں پہلے اپنے والد کو بھی ہسپتال میں کیمو تھراپی اور شعاعیں لگوانے کے لئے لاتی رہیں ہیں اور خود بھی کینسر کی اس غیر معمولی قسم لمفوما میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پچھلے دس سالوں سے کیموتھراپی کروا چکی تھیں پر کسی بھی قسم کی کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں مل رہی تھی
ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ ڈاکٹروں نے نورین کے گھر والوں سے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ ان کے پاس صرف 48 گھنٹے ہیں ،یہ وہ وقت تھا جب وہ اسانک کومہ میں چلی گئیں اور ایک ہفتہ تک اس ہی حالت میں رہیں اور اس دوران ان کے دماغ میں سوجن آگئی لیکن پھر اللہ پاک نے انہیں نئی زندگی دی۔ ان کو دی جانے والی دوائی سے جسم کو جھٹکے ملنا تو بند ہوئے لیکن ٹیومر ان کے دماغ میں تین جگہ پہنچ چکا تھا
برین لیمفوما کے علاج کے طور پر ڈاکٹروں کی نورین کو دی جانے والی تجویز
جب نورین کو علاج کے لئے اسلام آباد کے نجی ہسپتال الشفاء انٹرنیشنل لے جایا گیا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر نے انہیں ٹیومر کو کنٹرول کرنے کے لئے سٹیم سیل کا طریقہ علاج اپنانے کو کہا ، ڈاکٹر ایاز کے مطابق اب اس طریقہ کار کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا
کیڑے مار دوا تھائوٹیپا کا استعمال
ڈاکٹر نے نورین اور اس کھ گھر والوں کو بلا کر بتایا کہ ان کے ٹیومر کا واحد علاج سٹیم سیل طریقہ کار ہی ہے جس میں ہم کیڑے مار دوائی کا استعمال کریں گے اور یہ ان کی جان بچانے کا اب واحد طریقہ بچا ہے۔ یہ فیصلہ لینا نورین اور اس کے گھر والوں کے لئے بہت مشکل تھا لیکن نورین کے مطابق
میں نے سوچا کہ یہ عقلمندی نہیں کہ اگر ایک ہی راستہ ہے اور اسے میں اس لئے نہ اپناؤں کہ وہ نیا ہے،میں پریشان تو تھی کہ میرے علاج کے لئے میرے جسم میں کیڑے مار دوا داخل کی جائے گی لیکن میں نے سوچا کہ یہی چیز ہے جس سے شاید اللہ مجھے بچا دے، مجھے کوشش کرنی چاہیئے۔
کیڑے مار دوا سے برین لیمفوما کا علاج
مریضہ کی رضامندی کے بعد ابتداء میں ان کے ٹیومر کا سائز کم کرنے کےلئے کیمو اور شعاعوں کا سہارا لیا گیا ۔ شعاعوں اور دواؤں سے ٹیومر سکڑ گیا اور پھی ان کے باقاعدہ علاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے علاج کے لئے استعمال کی جانے والی دوا تھائوٹیپا ،جو کہ پاکستان میں نہیں بنتی اسے ان کے گھر والوں نے سنگا پور سے 17 لاکھ روپے میں منگوایا
سٹیم سیل کا طریقہ علاج
اس طریقہ علاج کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں کوئی داوغ کا آپریشن کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا ،سٹیم سیل طریقہ علاج میں دماغ کو نہیں بلکہ بون میرو یعنی ہڈیوں کے گودے کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور اس کے کیموتھراپی میں استعمال ہونے والی دواؤں میں کیڑے مار دوا اور کارمسٹین شامل ہیں جو دماغ کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔
اس طریقہ کار کا نقصان یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی دوائیں ہڈیوں کے گودے کو تباہ کر دیتی ہیں، یعنی اگر مریض ٹیومر سے بچ بھی جائے تو بون میرو کی تباہی کی وجہ سے زندہ نہیں بچ سکتا۔
علاج کی سختیاں
ڈاکٹر کے علاوہ اس علاج میں 20 اہلکاروں پر مشتمل عملہ تھا ۔ اس میں نورین کی دن میں تین مرتبہ مختلف اوقات میں کیموتھراپی کی گئی اور ہر بار دواؤں کے اثرات سے جسم کو بچانے کے لئے انہیں نہلایا جاتا۔ کیمو کے ایک ہفتے بعد انہیں سٹیم سیل لگائے گئے۔پہلے ہفتے کے بعد ان سیلز میں زیادتی دیکھی گئی جو کہ ایک خوش آئند بات تھی۔دو ہفتے مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ان کی حالت کافی بہتر ہو گئی ہے اور انہیں ڈسچارج کر دیا گیا۔
علاج کا دورانیہ نورین کے لئے
نورین کے لئے علاج کے یہ 30 دن کسی عذاب سے کم نہ تھے لیکن وہ اس جان لیوا بیماری برین لمفوما کو شکست دینے کے لئے پر عزم تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 30 دن ایک ایسے کمرے میں جہاں نہ روشنی داخل ہو سکتی تھی نہ ہوا اور نہ ہی کوئی آ جا سکتا تھا سوائے ایک گھر والے کے ۔ میرے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا اور 7، 7 دنون کی ڈیوٹی دی ۔لیکن اگر میں ہمت ہار بھی جاتی تھی تو ڈاکٹرز اور میرے گھر والوں نے میری ہمت بندھائی اور میں اس بیماری کو ہرانے میں کامیاب ہوئی۔
سٹیم سیل علاج کے مراحل
ڈاکٹروں کے مطابق یہ پاکستان میں برین لمفوما کے خلاف سٹیم سیل کا پہلا کامیاب تجربہ ہے لیکن ابھی ہم نے پہلا مرحلہ عبور کیا ہے ، اس کے دوسرے مرحلے میں یہ دیکھنا ہے کہ ان کے دماغ میں جو چھوٹا سا ٹیومر بچا ہے وہ ختم ہو گیا ہے کہ نہیں اور اس کے بعد تیسرا مرحلہ اگلے 5 سال تک ان کا فالو اپ ہوگا، یعنی چیک اپ۔ جرمنی میں سٹیم سیل علاج کے بعد آنے والے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس علاج کے 5 سال گزر جانے کے بعد بھی مریض بالکل صحیح ہیں