یہ کہانی ایک ایسے باہمت الیکٹریشن کی ہے جس نے اپنے بازو اور کندھے ایک حادثے میں گنوا دئے لیکن اس کے گھر والوں کے ساتھ اور اس کی ہمت نے اسے دوبارہ نئے بازو اور کندھے حاصل کرنے میں مدد کی اور اسے زندگی کی جانب واپس لوٹنے میں بھی مدد کی
ہم سب کو بیک وقت زندگی میں خوشی اور غمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں سے بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو اپنی چھاپ ہماری زندگی پر چھوڑ جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک الیکٹریشن فلیکس گریٹرسن کے ساتھ بھی ہوا۔ جب الیکڑک شاک کی وجہ سے اسے اپنے دونوں بازو اور کندھے گنوانے پڑے۔
بازو اور کندھے گنوانے کی کہانی
وہ 1998 کی ایک سرد صبح تھی، جب الیکٹریشن فیلکس گریٹرسن کو اس کے آبائی علاقے میں ایک اوور ہیڈ پاور کیبل کی مرمت کے لئے باہر بھیجا گیا،یہ ایک معمول کے مطابق کام تھا لیکن ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اس نے پائلن کے اوپر سے ایک لائیو تار کو پکڑ لیا جس کی وجہ سے 11 ہزار وولٹ کے جھتکے نے اسے منجمندٹنڈرا پر پھینک دیا
دس میٹر بلندی پر سے گرنے کی وجہ اس کی گردن اور کمر تین جگہوں سے ٹوٹ گئی۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں بازو اور کندھے آگ سے جل رہے تھے، خوسقسمتی سے قریب ہی ایک دریا تھا اس کے ساتھیوں نے عقل سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے ہیلمٹ پانی سے بھرے اور اس کے جلتے ہوئے بازو اورکندھوں پر پانی ڈال کر آگ بجھائی۔ فیلکس گریٹرسن کے مطابق میرا پورا جسم کام کرنا بند کر چکا تھا بس صرف مجھے پیٹ میں درد محسوس ہو رہا تھا
فلیکس گریٹسن کے مطابق جب میں ہسپتال پہنچا تو میری حالت بہت خراب تھی جس کے لئے مجھے نیند میں ڈال دیا گیا اور میں تین ماہ بعد بیدار ہوا لیکن میرے پاس میرے بازو اور کندھے نہیں تھے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ہم نے ابتداء میں اس کے بازو کہنی تک ہی کاٹے لیکن انفیکشن اس قدر زیادہ تھا کہ ہمیں بازو، کندھوں تک کاٹنے پڑے یہ صرف اس کی جان بچانے کا واحد طریقہ تھا ۔ اس کے مطابق اس حادثے کے ابتدائی سالوں میں اس کے 54 آپریشن کئے گئے۔
بازو اور کندھے گنوانے کا نفسیاتی اثر
ہوش میں آنے کے بعد جب گریٹرسن کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے بازو اور کندھے گنوا چکا ہے تو وہ بڑی طرح ٹوٹ گیا اور مایوسی کا شکار ہو گیا۔ اس کے علاج کے دوران اس کی مختلف تھراپیز ہو رہی تھیں جس میں اسے شراب سے دور رہنے کی ہدایات کی گئیں لیکن اس نے غم کو دور کرنے کے لئے بے تحاشا شراب نوشی شروع کر دی جس کی وجہ سے اس کا جگر بری طرح متاثر ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے اسے جگر کی پیوندکاری کا مشورہ دیا ان کے مطابق اگر ایسا نہ کیا گیا تو دو ماہ میں یہ مر سکتا ہے
پھر اس کی جگر کی پیوندکاری کی گئی جس نے اس کے دماغ کو ٹرانسپلانٹس کے لئے کھول دیا اور وہ بےچینی سے ہاتھوں کے ٹرانسپلانٹ کے لئے ڈونر تلاش کرنے لگا ، اس کی امید جاگی جب اس نے پہلی مرتبہ 1999 میں فرانس میں کامیاب ہاتھ کی پیوندکاری کے متعلق سنا۔ اتفاق سے اس سرجری کو انجام دینے والے پروفیسر نے 2007 میں کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئس لینڈ کا دورہ کیا
گریٹرسن نےاس پروفیسر ڈوبرنارڈ کو ٹریس کیا اور اس نے اس کے کیس کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا۔ایک سال بعد جرمنی میں ڈبل بازو کی پیوندکاری کی خبر نے گریٹر سن کی امید میں اضافہ کیا اور وہ ان ڈاکٹروں کے قریب رہنے کے لئے لیون چلا گیا جن سے اسے امیدیں تھیں۔
بازو اور کندھے کی تلاش میں فرانس تک کا سفر
گریٹرسن بازو اور کندھے حاصل کرنے کے لئے دل میں امیدیں لئے فرانس پہنچا جہاں اس نے ایک میٹ اپ گروپ میں شمولیت اختیار کی،انہیں کلاسوں میں اس کی لاقات پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک یوگا ٹیچر سلوایا سے ہوئی جس سے اسے محبت ہو گئی اور انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی شادی کے متعلق گریٹرسن کا کہنا ہے کہ میں یہاں بازو لینے آیا تھا لیکن اب میرے پاس سب کچھ ہے۔
سلوایا سے شادی کے بعد گریٹرسن نے بازو ملنے کی تڑپ کو محسوس کرنا کم کر دیا لیکن اس سال جنوری میں انہیں ڈاکٹر کا فون آیا کہ انہیں ایک مناسب ڈونر مل گیا ہے اور وہ اس کی سرجری کرنا چاہتے ہیں۔ گریٹرسن دنیا کے پہلے ڈبل بازو اور کندھے کی ٹرانسپلانٹ کروانے والے شخص ہیں۔ سرجنز نے اس ٹرانسپلانٹ کو کامیاب قرار دیا ہےلیکن ڈاکٹروں کے مطابق انہیں تین سال بعد یہ دیکھنا باقی ہے کہ گریٹر سن کے بازو کتنی حرکت میں آتے ہیں
بازو اور کندھے کی پیونکاری کے بعد
ڈاکٹروں کے مطابق گریٹرسن کی ابتدائی علامات امید افزاء ہیں گریٹرسن کے مطابق وہ اپنے اونوں بازو کہنی تک حرکت کر سکتے ہیں اور اعصآب کو بھی محسوس کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اب مجھے مینیکور کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور میرے ناخن بھی بڑھنے لگے ہیں جن کو تراشنے کے لئے مجھے اپنی ماں کی ضرورت ہے
گریٹرسن اپنی حالت میں مثبت تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں حالانکہ ابھی یہ سوال مجود ہے کہ ایا وہ کس حد تک ٹھیک ہو سکتے ہیں اور ان کے بازو کس حد تک فعال ہو پاتے ہیں۔ ان کی بیوی کہتی ہیں کہ بازو اور کندھے پانا گریٹرسن کا خواب تھا لیکن میرے نزدیک یہ اتنا بھی ضروری نہیں تھا کیونکہ بازو اور کندھے کے بغیر بھی ان کے شوہر نے ان کو ہر قسم کی خوشی دی ہے