ایچ آئی وی ( ہیومون امیونو وائرس) ایک ایسا وائرس ہے جو جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ایڈز (ایکوائرڈ امیونو سنڈروم) کا باعث بن سکتا ہے۔ ایچ آئی وی کے بارے میں بنیادی معلومات کا ہونا اس کی منتقلی کو روک سکتا ہے
ایچ آئی وی کیا ہے؟
ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے اور علاج نہ کئے جانے پر ایڈز میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ فیالحال اس کا کوئی مؤثر علاج موجود نہیں ہے جن کو ایچ آئی وی ہو جاتا ہے تو انہیں یہ بیماری اندگی بھر رہتی ہے لیکن مناسب طبی دیکھ بھال کے ساتھ اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اس بیماری سے متاثر ہونے والے لوگ اگر اس کا مناسب علاج کرواتے ہیں تو وہ لمبی صحت مند زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کی بھی حفاظت کر سکتے ہیں۔
ایچ آئی وی کہاں سے آیا؟
انسانوں میں ایچ آئی وی انفیکشن وسطی افریقہ میں چمپینزی کی ایک قسم سےآیاجب انسانوں نے ان چمپینزیوں کو گوشت کے لئے شکار کرنا شروع کیا اور پھر یہ وائرس چمپینزی کے گوشت سے انسانی خون میں منتقل ہوا۔کئی دہائیوں کے دوران یہ وائرس افریقہ اور بعد میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔
ایچ آئی وی کی جانچ
اس بیماری کا پتہ لگانے کا واحد طریقہ صرف خون کی جانچ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایچ آئی وی کی بروقت جانچ آپ کو یا آپ کے ساتھیوں کو یہ بیماری منتقل کرنے یا اس سے متاثر ہونے سے بچا سکتی ہیں
ایچ آئی وی کی علامات
کچھ لوگوں میں اس بیماری سے متاثر ہونے کے بعد 2 سے 4 ہفتوں کے اندر فلو جیسی علامات ہوتی ہیں اس کے علاوہ دیگر علامات میں شامل ہیں بخر، سردی لگنا، رات کو پسینہ آنا،پٹھوں میں درد، گلے کی سوزش، تھکاوٹ، منہ کے چھالے وغیرہ بعض اوقات یہ علامات کسی دوسری بیماری کی وجہ بھی ہو سکتی ہیں لہذا بہتر یہی ہو گا کہ اگر آپ کو شک ہو تو اس کی جانچ کے لئے خون کا ٹیسٹ کروا لیں۔
ایچ آئی وی کے مراحل
جب ایچ آئی وی والے افراد کا علاج نہیں ہوتا تو وہ عام طور پر تین مراحل سے گزرتے ہیں۔ لیکن اس کا علاج بیماری کے بڑھنے کو سست یا روک سکتی ہے۔علاج میں پیشرفت کے سبب اب اس وائرس سے متاثر افراد تیسرے مرحلے تک بمشکل ہی پہنچتے ہیں۔
مرحلہ 1: شدید انفیکشن
جن لوگوں میں ایچ آئی وی کی بڑی مقدار ہوتی ہے وہ بہت متعدی ہوتے ہیں، کچھ لگوں میں فلو جیسی علامات ہوتی ہیں اور یہ انفیکشن کا قدرتی ردعمل ہے لیکن کچھ لوگوں میں بالکل بھی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں اگر اپ کو فلو جیسی علامات کافی لمبے عرصے تک ہے یا آپ کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا شک ہے تو بہتر ہے کہ آپ اپنے خون کی جانچ کروائیں۔ صرف اینٹی باڈی ٹیسٹ یا نیوکلک ٹیسٹ ہی اس وائرس کے شدید انفیکشن کی جانچ کر سکتے ہیں۔
مرحلہ 2:دائمی انفیکشن
اس مرحلے کو اسیمپٹومیٹک ایچ آئی وی یا طبی تاخیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں اانفیکشن کم سطح پر فعال ہوتا ہے اس مرحلے کے دوران عام طور پر کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ علاج کے بغیر یہ مرحلہ تقریبا دس سال تک رہ سکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کو یہ انفیکشن زیادہ تیزی سے متاثر کر سکتا ہے۔اس مرحلے کے لوگ زیادہ تیزی سے اس بیماری کو دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں
اس مرحلے کے اختتام تک خون میں ایچ ائی وی کی مقدار( جسے وائرل لوڈ) کہتے ہیں بڑھ جاتی ہے اور سی ڈی 4 سیل کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔ خون مین وائرس کی سطح کے بڑھنے کے ساتھ ہی متاثرہ شخص میں علامات ظاہر ہو سکتی ہیں اور وہ شخص اسٹیج 3 میں چلا جاتا ہے ۔ لیکن جو لوگ تجویز کردہ ادویات کا استعمال کرتے ہیں وہ بمشکل ہی تیسری اسٹیج میں داخل ہوتے ہیں۔
مرحلہ 3: ایکوائرڈامیونو ڈیفینسی سنڈروم(ایڈز)
یہ ایچ آئی وی کا سب سے شدید مرحلہ ہے ۔ ایڈز میں مبتلا افراد کے مدافعتی نظام کو پری طرح نقصان پہنچتا ہے لوگوں کو ایڈز کی تشخیص اس وقت کی جاتی ہے جب سی ڈی 4 خلیوں کی تعداد 200 خلیات فی ملی میٹر سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ ایڈز والے افراد میں وائرس کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ متعدی ہو جاتے ہیں ۔ علاج کے بغیر ایڈز سے متاثر افراد عام طور پر تین سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں
ایچ آئی وی کیسے پھیلتا ہے؟
وائرس مختلف طریقوں سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہو یہ سکتا ہے۔
جسی تعلق سے: اگر آپ کسی متاثرہ ساتھ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو آپ کو یہ یہ انفیکشن ہو سکتا ہے۔ جنسی تعلق کے دوران خارج ہونے والی رطوبتوں کے ذریعے یا منہ کے تھوک سے یہ وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔
متاثرہ خون : بعض صورتوں میں یہ وائرس خون کی منتقلی سے بھی دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے لہذاکسی بھی بلڈ بینک سے خون حاصل کرتے وقت اس بات کی مکمل جانچ کر لیں کہ آپ کو مکمل طور پر صحت مند خون دی جا رہا ہے۔
متاثرہ طبی الات اور سرنج کا استعمال: بعحض اوقات یہ وائرس متاثرہ طبی الات کے استعمال سے (دوران آپریشن یا دانتوں کے علاج میں)یا وائرس سے متاثر شخص کی سرنج استعمال کرنے سے بھی منتقل ہوتا ہے۔
حمل یا دودھ پلانے سے: متاثرہ مائیں اپنے بچوں کو یہ وائرس منتقل کر سکتی ہیں جبکہ وائرس کا علاج کروانے والی مائیں اپنے بچوں میں وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرسکتی ہیں۔
ایچ ائی وی وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام
نہ ہی اس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین۔ اس سے بچنے اور اسے پھیلنے سے روکنے کا واحد ااور بہترین طریقہ صرف اور صرف احتیاط ہے۔ یہ متاثرہ شخص کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والے افراد میں یہ وائرس منتقل نہ ہونے دے اور اپنے علاج اور اس کے پھلاؤ کی روک تھام سے متعلق معلومات کے لئے فوری طور پر داکٹر سے رابطہ کرے۔