دودھ ایک بہترین غذا کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کو بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں طور پر اہم گردانا جاتا ہے۔ یہ توانائی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے اور بہت سے غذائی اجزا کا اہم ذریعہ ہے۔ لیکن کچھ حالات میں یہ صحت بخش غذا نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ دودھ کا استعمال کچھ لوگوں میں بہت سے صحت کے مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ دودھ کے استعمال سے ہونے والے صحت کے کچھ مسائل کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔
:جلد کے مسائل
کچھ لوگوں میں دودھ کا استعمال سے جلد پر دانے اور ایکنی کی شکایات سامنے آنے لگتی ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کو ایکنی کی شکایت ہو ان کو دودھ کا استعمال کرنےمیں اھتیاط کرنی چاہیے۔
ایگزیما اور جلد کی دیگر کچھ بیماریاں بھی دودھ کے استعمال سے بگڑ سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نیوٹریشنسٹ سے رابطہ کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
:الرجی
کچھ افراد میں دودھ سے الرجی کا مرض بھی پایا جاتا ہے۔ اگر اس مرض میں مبتلا لوگ دودھ استعمال کر لیں تو شدید علامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جیسے کہ جلد کی سرخی، اسہال، سانس لینے میں دشوری اور منہ کی سوجن وغیرہ۔ وہ لوگ جن کو دودھ سے الرجی ہو انہیں تمام عمر اس سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔
:کینسر
دودھ اور دوسری غذائوں سے ملنے والے کیلشیم کی اضافی مقدار اور بعض اوقات اس میں شامل ادویات اور کیمیکلز کی وجہ سےجسم میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور ہر مردوں میں پروسٹیٹ کینسر کی شکایات سامنے آسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ میہں پائ جانے والی ایک خاص شکر سے خواتین میں اوویرین کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
:معدے کے مسائل
بہت سے لوگوں کو دودھ کا استعمال راس نہیں آتا اور وہ اس کے استعمال کے بعد گیس اور بدہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکٹوز انٹولیرینس بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ معدے کے مسایل مٰن مدد اور رہنمائی کے لیے ماہر امراض معدہ سے رابطہ کیجیئے۔
:موٹاپا
چکنائی سے بھرپور دودھ اور اس سے بنی مصنوعات کا زیادہ استعمال وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے۔ خاص طور ہر بازاری مصنوعات جن میں اضافی شکر اور کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں وزن بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
دراصل دودھ کا استعمال احتیاط کا متقاضی ہے۔ کھلے دودھ کو اچھی طرح ابال کر استعمال کرنا جاہیئے اور اس کی اضافی چکنائی کو الگ کر دینا چاہیے۔ ڈبے کا دودھ بھی صرف اچھی کمپنیوں کا استعمال کرنا جاہیے تا کہ غیر معیاری اجزا اور مضر صحت کیمیکلز سے بچا جا سکے۔