میموگرام چھاتی کی ایک ایکس رے تصویر ہے۔ چھاتی کے کینسر کی ابتدائی علامات کو دیکھنے کے لیے ڈاکٹر میموگرام کا استعمال کرتے ہیں۔ باقاعدگی سے میموگرام کراتے رہنے سے ڈاکٹروں کو چھاتی کے کینسر کا جلد پتہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ٹیسٹ بعض اوقات کینسر کی علامات محسوس ہونے سے تین سال پہلے تک بھی کینسر کی تشخیص کرنے میں ڈاکٹر کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
اگر آپکو یاکسی عزیزہ کوبریسٹ کینسر کا عارضہ لاحق ہے تو اس کے لیےوزٹ کریں marham.pk .
یا کسی بھی ڈاکٹر سے رابطے کے لئے ابھی ملایئں03111222398
Table of Content
میموگرام 
یہ کہانی ہے جیکی فروبر کی جو امریکہ کے شہر نیویارک کے سینٹ پیٹرز ہیلتھ پارٹنرز میں ملازمت کرتی ہیں۔ چونکہ 15اکتوبر نیشنل میموگرافی ڈے ہے۔لہٰذا ان کی ہسپتال انتظامیہ نے اپنے ملازمین کو مفت میموگرام کی پیشکش کی۔ اس سے متعلق اشتہار جیکی نے اپنے دوست کارکن کی میز پر دیکھا۔جس میں خواہشمند افراد کو سائن اپ کے لئے کہا گیا تھا۔
کینسر کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں
جیکی فروبر کے قریبی عزیزوں میں اس کی دادی کو چھاتی کا کینسر تھا، تاہم تشخیص کے وقت ان کی عمر بہت زیادہ تھی۔ اور جیکی نے تو دو ماہ قبل ہی اپنی 40ویں سالگرہ منائی تھی لہٰذا اسے اپنی میموگرام اسکریننگ سے متعلق کوئی خدشات نہیں تھے۔
میمو گرام سائن اپ
اگرچہ یہ بات اب خاصی جاہلانہ معلوم ہوتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ جیکی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس جیسی جوان اور صحت مند عورت کو بھی بریسٹ کینسر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میموگرام اسکین کے لئے اس نے بے فکری سے سائن اپ کیا ۔
فالو اپ امیجنگ اور الٹراساؤنڈ
فروری میں ہفتہ کو میمو گرام اسکین کرانے کے بعد، بقیہ ویک اینڈ جیکی نے معمول کے مطابق اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ مصروف گزارا۔ جیکی کو اپنے میموگرام ٹیسٹ کے نتائج کے بارےمیں کسی قسم کی فکرمندی نہیں تھی۔
یہاں تک کہ ایک دوپہر جب اسے ڈاکٹر کے دفتر سے ایک کال موصول ہوئی جہاں اس نے اپنا میموگرام کروایا تھااور اسے فالو اپ امیجنگ اور الٹراساؤنڈ کے لیے دوبارہ بلایا گیا ۔ تب جیکی کو لگا کہ چونکہ فربہ خواتین کے چھاتی کے ٹشو کے میموگرام نتائج کا اندازہ مشکل ہوتا ہے اس لئے یہ تو ایک معمول کی کاروائی ہے۔
بائیوپسی
دوبارہ میموگرام اور الٹراساؤنڈ کرانے کے بعد، جیکی فروبر کی ملاقات ‘ میری’ نام کی ایک مہربان اور تحمل مزاج نرس نیویگیٹر سے ہوئی جس نے اس کے میموگرام نتائج کا جائزہ لیا۔ نرس نے اس کی دائیں چھاتی میں کیلکیفیکیشن کی نشاندہی کی۔ میری نے وضاحت کی گو کہ چھاتی کا کیلکیفیکیشن عام ہے اور عام طور پر بے ضرر (غیر کینسر) ہے، لیکن جیکی کو مکمل اطمینان کے حصول کے لئے سوئی کے بائیوپسی کی ضرورت ہو گی۔
بریسٹ کینسر کی تشخیص
بائیوپسی کے بعد بھی جیکی نے اپنے اہل خانہ سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ کے بعد، جب وہ دفتر سے نکلنے کے لئے تیار تھی اور اپنی چیزیں پیک کر رہی تھی کہ اسکے بنیادی نگہداشت کے ڈاکٹر نے اسے فون کر کے بائیوپسی کے افسوسناک نتائج سے آگاہ کیا۔
صدمہ
کینسر کی تشخیص کا سن کر تو جیکی کو یوں لگا جیسے اس کےسر پر چھت آن پڑی ہو۔اس کے سننے سمجھنے کی صلاحیت تو جیسے سلب ہو گئی۔ جیکی نے صرف اتنا سنا کہ ڈاکٹر اسے بریسٹ سرجن کے پاس بھیجنے والی ہیں۔ اس وقت وہ صرف اپنے بچوں کے بارے میں سوچ رہا تھی۔ اگرچہ اس کے لئے کینسر کا مطلب موت تھا اور وہ بہت خوفزدہ تھی۔تاہم اسے اپنے بچوں کی خاطر ہمت کرنی تھی۔
اعصاب کی جنگ
جیکی کو اس ذہنی تناؤ کے وقت صرف یہی سوجھا کہ اپنے دوست اور ساتھی کارکن کو فون کرے جو اسی عمارت کی اگلی منزل پر پر کام کرتا ہے۔ اور اسے اطلاع دی کہ “مجھے کینسر ہے”۔
اس کا دوست دوڑتا ہوا آیا اور نرس نیویگیٹر’ میری’ کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں سوالات اور اقدامات میں مدد کے لئے بلایا۔جب جیکی اور میری بریسٹ سرجن کے پاس گئے تو اس کی حالت غیر تھی۔ تاہم ایسے میں میری نے آگے بڑھ کے اسے سنبھالا اور پرسکون رہتے ہوئے ڈاکٹر کی تمام ہدایات نوٹ کیں ، جو بعد میں خاصی معاون ثابت ہوئیں۔
لمپیکٹومی، ماسٹیکٹومی اور تعمیر نو کی سرجری
سرجن نے لمپیکٹومی کی سفارش کی لیکن علاج کو آگے بڑھانے سے پہلے دائیں چھاتی کو بہتر طریقے سے دیکھنے کے لیے ایم-آر-آئی تجویز کیا۔ جو بعد میں مفید ثابت ہوا کیونکہ ایم-آر-آئی کے نتائج نے پورے چھاتی میں کینسر کی موجودگی کی نشاندہی کی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اب لمپیکٹومی کی ضرورت نہیں رہی۔
مجھے ماسٹیکٹومی اور تعمیر نو کی سرجری کی ضرورت ہوگی، اور مریضوں کی شیڈولنگ کی وجہ سے، سرجری کے لیے داخل ہونے میں مزید چند ہفتے لگیں گے۔
تکلیف دہ انتظار
جیکی کے لئے ہر دن اذیت ناک تھا ۔ اسکے لئے اپنے اندر کینسر ہونے کا احساس ہی دماغی صلاحیتیں ماؤف کر دینے والا تھا۔ وہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھی اور جلد از جلد اس موذی مرض سے نجات پانا چاہتی تھی ۔ اس نے اپنے ذہن کو کینسر اور سرجری سے ہٹانے کے لئے خود کو مصروف کر رکھا تھا۔ گو کہ وہ پورا دن کام میں گزارتی تھی، لیکن جذباتی طور پر وہ نڈھال ہو رہی تھی۔
ماں کی ممتا
اس وقت تک جیکی اپنے شوہر کو اس بیماری کے بارے میں آگاہ کر چکی تھی لیکن وہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ اپنے بچوں کو یہ بری خبر سنا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
سرجری سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اس کے 15 سالہ بیٹے، مچائی نے محسوس کیا کہ کچھ گڑبڑ ہے اور سوال کیا کہ، “ماں، آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟” جیکی نے جب اسے بتایا تو اس نے ما ں کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ ۔ “بس اس کا خیال رکھو ماں،تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔” جب اس نے اپنی 12 سالہ بیٹی میڈی کو اس کی اطلاع دی تو وہ اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔
میڈی اور مچائی کی خاطر اس نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ پھر سے ٹھیک ہو جائے گی تاہم انہیں اپنی صحتیابی کا یقین دلاتی رہی۔ بچے ماں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ،اور وہ تینوں پوری رات جاگتے رہے ۔
بلآخر ایک خوشی کی خبر
اپریل میں، جیکی کے ابتدائی میموگرام کے دو ماہ بعد، ایک ماسٹیکٹومی اور تعمیر نو کی سرجری ہوئی۔ سرجری کے دوران، ڈاکٹر نے یہ دیکھنے کے لیے لمف نوڈس لیے کہ آیا کینسر پھیل گیا ہے۔ خوش قسمتی سے، لمف نوڈس میں مارجن صاف تھے، مطلب یہ کہ کینسر نے چھاتی سے باہر سفر نہیں کیا تھا۔ اور اب تک کی سب سے اچھی خبر کہ : جیکی فروبر کو تابکاری یا کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یعنی وہ ٹھیک ہونے والی تھی۔
کینسر سے نجات
آج، چار سال بعد، جیکی فروبر کینسر سے پاک ہیں۔ وہ اب بھی سینٹ پیٹرز ، میں کام کرتی ہیں، اور وہ اب بھی مفت میموگرام اسکریننگ کے پروگرام جنہوں نے اس کی جان بچائی پیش کرتے ہیں ۔ جیکی کہتی ہیں کہ اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو وہ یہی کہیں گی کہ میموگرام ان کی 40 سال کے ہونے پر کرنے کی چیزوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا، اورسچ پوچھیں تو وہ نہیں جانتی کہ نجانے اسے کب شیڈول کرتی۔
اکثر خواتین کی ظرح جیکی بھی اپنی ضروریات اور صحت پر دوسروں کو فوقیت دیتی ہیں۔ لیکن اس تجربے سے انھوں نے یہ سبق حاصل کیا کہ خواتین کو اپنی صحت کے حوالے سے لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے، اپنی صحت اور اس سے متعلق ٹیسٹوں کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ اسی لئے خواتین کے لیے اپنی چھاتی کا ماہانہ خود معائنہ کرنا اور سالانہ میموگرام کروانا بہت ضروری ہے۔ بریسٹ کینسر کا جلد پتہ لگانے سے جان بچ جاتی ہے، اور جیکی فروبر اس کا زندہ ثبوت ہیں!