رضاعی بہن بھائی لوگ تب بنتے ہیں ۔جب دو لوگوں نے ایک ہی عورت کے سینے سے دودھ پیا ہو ۔ جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے (سورۃ النساء)، ایک بچہ جس نے کسی عورت کے سینے سے دودھ پیا ہے، وہ دودھ پلانے والی عورت کا رشتہ دار بن جاتا ہے۔ اور اس عورت کے بچے اس بچے کے رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہیں ۔
Table of Content
رضاعت کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟
دوسری عورت سے دودھ تب پلایا جاتا ہے ۔جب وہ عورت دودھ نا دے سکتی ہو یا اپنی مرضی سے نہ دینا چاہے ۔بہت ساری ثقافتوں بشمول مسلمان دائی یا وٹ نرس رکھاکرتے تھے ۔ صنعتی انقلاب کے بعد، جب وٹ نرسوں کو تلاش کرنا مشکل ہو گیا تو انسانی دودھ کی بینکنگ شروع ہوئی۔ اسلامی قانون میں، دودھ پلانے کے ادارے رشتہ داری کی ایک شکل (دودھ کی رشتہ داری) ہے۔

اسلام رضاعی بہن بھائی کی شادی کو روکتا ہے۔ تاہم، قرآن اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ رضاعی بہن بھائی کی شادیاں کیوں حرام ہیں۔
رضاعت کا قرآن میں بیان
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔
حدیث میں بیان
غیر محرم کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے لیکن احادیث میں دودھ کی مقدار اور رضاعت کی عمر کا تعین کیا گیاہے۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں ،کان فيما أنزل القرآن عشر رضعات معلومات يحر من ثم نسخن بخمس معلومات۔ قرآن میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پینا جبکہ اس کے پینے کا یقین ہو جائے نکاح کو حرام کردیتا ہے پھر یہ حکم پانچ مرتبہ یقینی طور پر دودھ پینے سے منسوخ ہو گیا۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع باب التحریم بخمس رضعات:1452)
حضرت عائشہ ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: لا تحرم المصتہ ولا لمصتان ’’ایک دفعہ اور دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الرضاع:1450)
حضرت اُم سلمٰہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’صرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جو انتڑیوں کو کھول دے اور وہ د ودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔‘‘ (سنن ترمذی:1152)
ابن عباس سے مروی ہے: لا رضاع إلا فی الحولين ’’کوئی رضاعت معتبر نہیں سوائے اس رضاعت کے جو دو سال کے دوران ہو۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق:3؍1390)
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ دو سال کی عمر میں جب بچہ پیٹ بھر کر جس سے انتڑیاں تر ہوجائیں پانچ دفعہ دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
رضاعت کا حکم
خیال رہے کہ دودھ کے رشتہ سے حرمت تو آئے گی مگر اس رشتہ سے میراث نہ ملے گی نیز اس رشتہ کی وجہ سے پردہ لازم نہ ہوگا اس کے ساتھ سفر و خلوت جائز ہوگا۔اس سے مراد دو لوگوں کے بیچ بھائی بہن جیسا رشتہ قائم ہونا اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک ہی عورت کا بچپن (شیرخوارگی) میں دودھ پیا ہو۔ اس ایک وجہ کے علاوہ ان لوگوں میں حقیقی ماں باپ بالکل الگ ہوں۔
اس رشتے کی وجہ سے اسلام میں دو افرادرضاعی بھائی بہن قرار پاتے ہیں اور ان کے بیچ شادی بیاہ درست نہیں۔ وہ بچہ جس کی عمر دو یا ڈھائی سال سے کم ہو اس کا کسی عورت کا دودھ پینارضاعت کہلاتاہے.
رضاعت اور جسمانی صفات میں یکسانیت کا مفروضہ
زمانہ قدیم میں یہ مانا جاتا تھا کے جو عورت بچے کو دودھ پلائے۔ وہ مضبوط اور تندرست ہونی چاہیے ۔ کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ رضاعی ماں کی تمام خوبیاں رضاعی بچے میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس بات کے کو ئی سائنسی شواہد موجود نہیں ہیں ۔ کہ کسی بچے کی عادتیں اور اس کا جسمانی قد کاٹھ اس کے رضاعی بہن بھائی جیسا ہو ۔
دورجدید کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بچہ کی عورت کے دودھ پلانے سے خون کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود آپس میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور ایسے دو افرادجو آپس میں رضاعی بہن بھائی ہیں ان کی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کو اس ہم آہنگی کے نتیجے میں بعض جینیات.(Genetic) امراض کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

چھاتی کے دودھ کی خصوصیات اور انکی ممکنہ منتقلی
دودھ پلانا بچوں کو زندگی بھر کے متعدد حیاتیاتی فوائد فراہم کرتا ہے، بشمول بقا میں اضافہ اور اعصابی علمی اور مدافعتی افعال میں بہتری۔ یہ اور دیگر فوائد چھاتی کے دودھ کے اجزاء سے منسلک ہیں، جن میں فیٹی ایسڈ ، نشوونما کے عوامل ، مدافعتی عوامل ، زچگی کے زندہ خلیات اور کچھ جینیاتی مواد شامل ہیں۔
دودھ کی رشتہ داری کے مفروضے کے لیے ممکنہ ثبوت چھاتی کے دودھ کی ساخت میں پایا جانا ہے، جو ایک زندہ مادہ ہے جس میں i) جینیاتی مواد (جیسے مائکرو آر- این- اے)، ii) اسٹیم سیلز اور iii) نامیاتی مادے جو ایپی جینیٹک ریگولیشن میکانزم اور جین کی نقل کو متاثر کرتے ہیں ۔

اگر آپکو یاآپکے عزیز کوکسی بیماری کی شکایت ہے تو اس کے لیےوزٹ کریں marham.pk .
یا کسی بھی ڈاکٹر سے رابطے کے لئے ابھی ملایئں03111222398
چھاتی کے دودھ میں اسٹیم سیلز کی موجودگی ایک اور اہم عنصر ہے جو دودھ کی رشتہ داری رضاعی بہن بھائی کے مفروضے کی حمایت کرتا ہے۔ اولاد میں زچگی کے خلیات یا ڈی این اے کی کم تعداد کی موجودگی کو زچگی-برانن مائیکرو کیمیرزم کہا جاتا ہے۔ چھاتی کا دودھ مائیکرو کیمیرزم کا ایک اہم ذریعہ ہے جس میں ایک فرد سے دوسرے فرد کو خلیات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اور زچگی کے خلیات سالوں تک اولاد میں برقرار رہتے ہیں ۔
ایک تجربے میں جس میں چوہوں کو نشان زدہ زچگی کے خلیات پر مشتمل دودھ پلایا گیا تھا، نشان زدہ خلیوں کو اولاد کے ٹشوز پر حملہ کرنے کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ اسٹیم سیل کی خود تجدید اور تفریق بھی ایپی جینیٹک میکانزم کے ساتھ متحرک طور پر تعامل کرتی ہے۔ کچھ miRNAs کا خاص طور پر اسٹیم سیلز میں اظہار کیا جاتا ہے، جو اسٹیم سیلز میں بعض کلیدی جینوں کے اظہار کو منفی طور پر ریگولیٹ کرکے اسٹیم سیل کی خود تجدید اور تفریق کو کنٹرول کرتے ہیں۔
آگر رضاعی بہن بھائی کے سا تھ شادی کر لی جائے تو ایک ان دونوں میں موجود ایپی جینیٹک سیل متحرک ہو سکتے ہیں ۔ جو کسی بھی نئی بیماری کو جنم دے سکتا ہے ۔ جس کی عام مثا ل ہم جین ہنٹر نامی بیماری کی دے سکتے ہیں جس میں مریض اپنے جسم پر قابو نہیں رکھ سکتا ۔ ان ہی بیماریوں کے پیشے نظر سائینس دان کزن میرج کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔
ایپی جینیٹک میکانزم کو تبدیل کرنے والے عوامل ماں کے دودھ کے ذریعے منتقل ہو سکتے ہیں اور یہ ایپی جینیٹک تعامل نسلی طور پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ نتائج نے مستقبل کی نسلوں پر کراس فوسٹرنگ کے موروثی ایپی جینیٹک اثرات اور ایپی جینیٹک پروگرامنگ پر ماں کے بچے کے اثرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔