وقت کے ساتھ ساتھ عمر میں اضافہ یعنی بڑھاپا ایک قدرتی عمل ہے اور بڑھاپا سے کسی کو فرار نہیں ہم میں سے اکثر لوگ اسے زندگی کی حقیقت سمجھتے ہیں اور زندگی کی جانب ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے اگر ہم روزمرہ زندگی میں چند سادہ سی عادتوں کو تبدیل کر لیں تو بڑھاپا کو مؤخر کر سکتے ہیں جس سے نہ صرف ہم زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ زیادہ صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں
Table of Content
ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟
ہم سب بڑھاپے کی واضح علامات جانتے ہیں جھریاں سرمئی بال تھوڑا سا جھکا ہوا انداز شاید بھولنے کے کچھ سینئر لمحات لیکن
ہمارے جسم کو ہمارے والدین کی جانب سے دو قسم کی معلومات ورثے میں ملتی ہیں جن پر ہمارا ماحول اور وقت دونوں اثراندازہوتےہیں
جینیاتی کوڈ
معلومات کی پہلی قسم ڈیجیٹل ہے یعنی ہمارے جنیٹک یا جینیاتی کوڈ اور دوسری قسم کی معلومات ایپی جینوم ہوتی ہیں جن سے مراد ہمارے خلیوں کے اندر موجود وہ نظام ہے جو یہ کنٹرول کرتا ہے کہ جسم کے اندر موجود کس جِین کو ’آن‘ کرنا ہے اور کس کو ’آف‘ کرنا ہے جب ہمارے ایک خلیے کے اندر 20 ہزار جِینز کو جگایا یا سلایا جاتا ہے تو اس سے مذکورہ خلیے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کردار کیا ہے
اس سے اس خلیے کو شناخت ملتی ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ اس نے کیا کام کرنا ہے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایپی جینوم پر لکھی ہوئی معلومات ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی سی ڈی پر جب خراشیں پڑ جاتی ہیں تو اس میں موجود ریکارڈ موسیقی یا ویڈیو خراب ہو جاتی ہے یوں وقت کے ساتھ ساتھ جینوم اپنا کام بھول جاتے ہیں میرا خیال ہے یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں
آپ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے بوڑھا ہونا ضروری نہیں لیکن کیوں؟
حیاتیات کی دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں بڑھاپا ضرور آنا ہے ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اس کے عمل کو روکا کیسا جا سکتا ہے لیکن دن بدن ہم اس کے عمل کو سست کرنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں بلکہ لیبارٹری میں تو ہم اس عمل کو الٹا کرنے کے قابل بھی ہو چکے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے جسم میں موجود جینوم کو بدلا جا سکتا ہے
ہم جس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں اس کے اثرات ہمارے اندر موجود سی ڈی پر پڑتے ہیں اگر ہم درست انداز میں کام کریں تو ہم اس کی گھڑیال کی سوئیوں کی رفتار بہت کم کر سکتے ہیں اور آج ہم خون اور تھوک کے نمونوں کا معائنہ کر کے اس گھڑیال کی رفتار معلوم کر سکتے ہیں
کیا چیزیں مختلف ہوتی ہیں؟
یہ تمام چیزیں بڑھاپے کی رفتار کم کرنے میں کیسے مدد کر سکتی ہیں؟
سائنسدان سمجھتے ہیں کہ آپ کی عادتیں اور دوسرے بیرونی عوامل مل کر بیماری اور بڑھاپا کے خلاف آپ کی قدرتی مدافعت میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں
ٹھنڈک یا گرمی کا احساس بھوک اور سانس کا اکھڑنا آپ کے اندر موجود اس مدافعت کو جگا سکتا ہے اس مدافعت کی جڑیں آپ کے جسم میں موجود چند جِینز میں پائی جاتی ہیں اور ہمیں ان میں سے کچھ جینز پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ جینز اصل میں ایپی جِینز کو کنٹرول کرتی ہیں اور یہ بھوک اور ورزش سے چاک و چوبند ہو کر اپنا کام شروع کر دیتی ہیں اسی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ درست خوراک اور بھوکا رہنے سے آپ اس کی رفتار کم کر سکتے ہیں
بڑھاپا کی وجہ امراض

آپ بڑھاپے کے حوالے سے ایک مختلف سوچ اپنانے کا کہتے ہیں یعنی بڑھاپے کا علاج ایک مرض کی طرح کیا جانا چاہیے لیکن کیوں؟
بیماری ایک ایسا عمل ہے جو عرصے پر پھیلا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ کسی معذوری یا موت کی شکل میں نکل سکتا ہے یہ اس جیسا ہی عمل ہے بڑھاپا ایک مرض ہے یہ ایک عام مرض ہے لیکن کسی چیز کے عام اور قدرتی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اسے قبول کر لینا چاہیے
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑھاپا کینسر سے کم بری چیز ہے۔ ہم اپنی تحقیق سے ثابت کر رہے ہیں کہ یہ ایک قابلِ علاج چیز ہے اس کی رفتار کو کم کیا جا سکتا اور اس سے بچا بھی جا سکتا ہے چونکہ بڑھاپے کو ابھی تک کوئی مرض نہیں سمجھا جاتا اسی لیے ڈاکٹر اس کے لیے کوئی دوا تجویز کرنے سے ہچکچاتے ہیں حالانکہ ان ادویات سے ممکنہ طور پر لوگوں کو صحت مند زندگی کے کئی برس مل سکتے ہیں
معیشت میں اضافہ اس وجہ سے ہو گا کہ لوگ بیمار نہیں ہوں گے امریکہ میں ہر سال مریضوں کی دیکھ بھال پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں مثلاً اگر یہی پیسہ تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں استعمال ہو تو اس سے پورا معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے جسم کی قدرتی قوتِ مداقعت کو طاقتور بنانے سے دنیا بدل جائے گی اور کئی دہائیوں تک عالمی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا یہ دنیا آج کی دنیا سے اتنی ہی مختلف ہو گی جتنی آج کی دنیا اینٹی بائیوٹکس کی ایجاد سے پہلے کی دنیا سے مختلف ہے
ہم اپنے جینز کو تبدیل نہیں کر سکتے اور ہم وقت گزرنے سے نہیں روک سکتے تاہم طرز زندگی میں تبدیلیوں کے ذریعے ہم عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ بیماریوں اور حالات کے لئے اپنے خطرے کو کم کرسکتے ہیں ہم اسکریننگ ٹیسٹ اور ویکسینیشن کے ساتھ بیماریوں کو بھی روک سکتے ہیں