کینسر سے جنگ: ملئے اداکارہ نادیہ جمیل سے جنھوں نے کینسر کو شکست فاش سے دو چار کیا نادیہ جمیل کے نام سے کو ن واقف نہیں۔ ایک بہادر خاتون جنھوں نے نہ صرف اداکاری کے میدان میں جوہر دکھائے بلکہ ذاتی زندگی میں بھی کینسر کو شکست دے کر اپنی بلند حوصلگی کا لوہا منوالیا ہے ۔
چھاتی کے کینسر سے صحتیاب ہونے والی اداکارہ نادیہ جمیل
نادیہ جمیل نے گذشتہ برس اپنے3 اپریل کو ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپنے چھاتی کے کینسر کی تشخیص کی افسوسناک خبر سنائی ۔ انحوں نے لکھا :
“پچھلے ہفتے، مجھے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں میں میں نے ہر طرح کے احساسات کو محسوس کیا ہے – خوف اور ناقابل شکست محبت سے لے کر سکون، قبولیت، صبر، زبردست شکرگزاری، اور ذمہ داری کا گہرا احساس”۔خبر پڑھتے ہی ان کے ہزاروں مداحوں اور خیرخواہوں کی جانب سے خیر سگالی کے پیغامات کا تانتا بندھ گیا۔ ہر خاص وعام ان کی بیماری کے لئے پریشان اور صحتیا بی کے لئے دعاگو تھا۔ “
اعصاب شکن جنگ
اداکارہ نادیہ جمیل جو گزشتہ سال سے چھاتی کے کینسر سے نبردازما تھیں ، نے اپنے مداحوں اور ساتھیوں کو سوشل میڈیا پر اپنی بیماری کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھا ۔ علاج کے دوران بھی وہ مسلسل اپنی پیشرفت سے لوگوں کو آگاہ کرتی رہیں۔ نادیہ علاج کے لئے برطانیہ گئی تھیں۔اس جسمانی اور اعصابی جدوجہد میں انھوں نےہمت نہیں ہاری سوشل میڈیا پرگاہے بہ گاہے اپنی ہنستی مسکراتی تصاویر شیئر کرتی رہیں۔ نہ صرف اپنے علاج کی تازہ صورتحال کے بارے میں آگاہ کرتی رہیں بلکہ انکو وہاں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی شئیر کرتی رہیں۔
اگر آپکو یاآپکے عزیزکوکینسر کا عارضہ لاحق ہے تو اس کے لیےوزٹ کریں marham.pk .
یا کسی بھی ڈاکٹر سے رابطے کے لئے ابھی ملایئں03111222398
نادیہ جمیل کینسر سے پاک!
سوشل میڈیا پر آکر خوشخبری سنائی کہ ان کے کینسر کے ٹیسٹ صاف آچکے ہیں۔ ” بے حد” سٹار نےبتایا کہ وہ کینسر کے علاج کے لئے برطانیہ گئی تھیں اور اب کچھ مہینوں سے گھر واپس آئی ہیں۔
نادیہ جمیل نے ایک طویل انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا۔ “آفیشلی کینسر سے پاک،کینسر کے تمام ٹیسٹ کلیئر ہیں۔ شکر الحمدللہ۔ آپ سب کی محبتوں، دعاؤں اور تعاون کا شکریہ۔ سفاک کیموتھراپی کی وجہ سے میرے پاؤں میں کچھ اعصابی نقصان ہوا ہے، لیکن میں اپنے طریقے سے رقص کرنے کے لیے زندہ ہوں”۔
کینسر اور مالی و جذباتی دشواریاں
کینسر ایک ایسا موذی مرض ہے جو مریض کو مالی اور جذباتی، دونوں حوالوں سے مفلوج کر دیتا ہے۔ مریض کو علاج معالجے کے لئے ایک خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی بیماری نہیں۔ اسی طرح چونکہ عموماً اس دوران صحت یابی کے امکانات یا تو کافی مدھم ہوتے ہیں یا قطعاً نہیں ہوتے لہٰذا مریض ہمیشہ جذباتی سہاروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ نادیہ کے ساتھ بھی ہوا۔ اداکار نے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کیا جو اس جدوجہد کے دوران ان کے ساتھ رہے۔
“شکریہ ! مجھے میرے مالی طور پر مشکل وقت میں کام کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے،” انہوں نے کہا، “میں اپنے تمام دوستوں اور خاندان والوں کی بھی ہمیشہ شکر گزار ہوں۔ انڈسٹری کے کچھ دوستوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا، ثانیہ سعید، منیبہ مزاری، سلطانہ صدیقی اور عدنان صدیقی۔ کا شکریہ!”
مشکل وقت میں انسان برے بھلے ہر قسم کے تجربات سے گزرتا ہے۔ اگر آپکو کچھ اچھے لوگ مل جائیں تو یہ وقت آسانی سے کٹ جاتا ہے تاہم برے لوگوں سے واسطہ پڑنا اور نمٹنا بھی زندگی کا حصہ ہے۔ نادیہ بھی ایسے ہی تجربات سے گذریں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، “کچھ ساتھی جو اب میگا اسٹار ہیں، مجھے بار بار ایک چھوٹی سی بات چیت کے لیے وقت دیتے ، پھر مجھے انتظار کراتے ۔ میں صرف دعا ہی کر سکتی ہوں کہ اللہ ان کے دلوں میں عاجزی اور احترام پیدا کرے۔ آخر کار، شہرت اور ناموری۔ کائنات کی اسکیم میں کچھ بھی نہیں ہے اور ہم سب، آخر کار، ایک ہی مٹی میں مدفون ہونگے۔”
کینسرسے سیکھا نیاسبق
مشکل اوقات میں ہی انسان کھرے کھوٹے کی پہچان سیکھتا ہے۔ دانا انسان وہ ہے جو یہ پہچان جلدی کر لیتا ہے ، خیرخواہوں کا شکرگزار رہتا ہے اور بدخواہوں سے کنارہ کر لیتا ہے۔ نادیہ اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ “میں نے تندرستی کی جانب اس سفر میں غیر متعلقہ سمجھنے اور کم مائیگی کا احساس دلانے والوں سے کنارہ کش ہونے, اور مہربانی اور عزت افزائی کرنے والوں کو گلے سے لگانا سیکھا۔
جن لوگوں نے مجھے کینسر اور عالمی وباء میں تنہائی کے دوران معاونت فراہم کی انکی میں زندگی بھر ممنون رہوں گی۔ یاد رکھیے! دوست احباب کی مدد و اعانت اہم ہے مگر آخر میں آپکو مصائب کا مقابلہ خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لئے مضبوط قوت ارادی اور اولوالعزمی کا ہونا ضروری ہے۔
‘دمسا’ سٹار مزید لکھتی ہیں کہ ، تاہم تمام تر سپورٹ کے باوجود آخر میں جب سب سے تکلیف دہ مرحلہ آیا تب اکیلی انکی اپنی ذات ہی تھی ۔ “آخر میں، اگرچہ، میں اپنے آپ کے ساتھ کھڑی ہوں. یہ میری سانس ہے جو مجھے زندہ رکھتی ہے،میری اپنی ذات ہی میری حفاظت کرتی ہے
.”
لیکن وہ بتاتی ہیں کہ وہ جانتی ہے کہ “اندھیرا پھر سے اترے گا۔ اور اندھیرے کو اترنا ہی ہے کیونکہ اندھیرے کے بغیر روشنی بے وقعت ہے۔ لیکن یہ وقت بھی پھر سے گزر جائے گا۔ اور اگرچہ میں دوبارہ گر جاؤں گی، میں جانتی ہوں کہ میرے پاس مشکلات سے سنبھلنے کا ایک مضبوط ارادہ ہے۔ ہر زوال کے ساتھ، میں مضبوط اور واضح طور پر اٹھوں گی۔ مجھے ہمیشہ سچائی، مہربانی، عاجزی، احترام، محبت کا راستہ دکھایا جائے اور پھر اس پر چلنے کا احساس اور ارادہ ہو۔”